YUSUF
شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
۱ الٓرا۔ یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں
۲ ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو
۳ (اے پیغمبر) ہم اس قرآن کے ذریعے سے جو ہم نے تمہاری طرف بھیجا ہے تمہیں ایک نہایت اچھا قصہ سناتے ہیں اور تم اس سے پہلے بےخبر تھے
۴ جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ ابا میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے۔ دیکھتا (کیا) ہوں کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں
۵ انہوں نے کہا کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا نہیں تو وہ تمہارے حق میں کوئی فریب کی چال چلیں گے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے
۶ اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ (وممتاز) کرے گا اور (خواب کی) باتوں کی تعبیر کا علم سکھائے گا۔ اور جس طرح اس نے اپنی نعمت پہلے تمہارے دادا، پردادا ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی اسی طرح تم پر اور اولاد یعقوب پر پوری کرے گا۔ بےشک تمہارا پروردگار (سب کچھ) جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
۷ ہاں یوسف اور ان کے بھائیوں (کے قصے) میں پوچھنے والوں کے لیے (بہت سی) نشانیاں ہیں
۸ جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت) ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں
۹ تو یوسف کو (یا تو جان سے) مار ڈالو یا کسی ملک میں پھینک آؤ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی۔ اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے
۱۰ ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو کسی گہرے کنویں میں ڈال دو کہ کوئی راہگیر نکال (کر اور ملک میں) لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہے (تو یوں کرو)
۱۱ (یہ مشورہ کر کے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ اباجان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیرخواہ ہیں
۱۲ کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیئے کہ خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے۔ ہم اس کے نگہبان ہیں
۱۳ انہوں نے کہا کہ یہ امر مجھے غمناک کئے دیتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ (یعنی وہ مجھ سے جدا ہوجائے) اور مجھے یہ خوف بھی ہے کہ تم (کھیل میں) اس سے غافل ہوجاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے
۱۴ وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں، اسے بھیڑیا کھا گیا تو ہم بڑے نقصان میں پڑگئے
۱۵ غرض جب وہ اس کو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اس کو گہرے کنویں میں ڈال دیں۔ تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ) تم ان کے اس سلوک سے آگاہ کرو گے اور ان کو (اس وحی کی) کچھ خبر نہ ہوگی
۱۶ (یہ حرکت کرکے) وہ رات کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے
۱۷ (اور) کہنے لگے کہ اباجان ہم تو دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے
۱۸ اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا (کہ حقیقت حال یوں نہیں ہے) بلکہ تم اپنے دل سے (یہ) بات بنا لائے ہو۔ اچھا صبر (کہ وہی) خوب (ہے) اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے
۱۹ (اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب) ایک قافلہ آوارد ہوا اور انہوں نے (پانی کے لیے) اپنا سقا بھیجا۔ اس نے کنویں میں ڈول لٹکایا (تو یوسف اس سے لٹک گئے) وہ بولا زہے قسمت یہ تو (نہایت حسین) لڑکا ہے۔ اور اس کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا لیا اور جو کچھ وہ کرتے تھے خدا کو سب معلوم تھا
۲۰ اور اس کو تھوڑی سی قیمت (یعنی) معدودے چند درہموں پر بیچ ڈالا۔ اور انہیں ان (کے بارے) میں کچھ لالچ نہ تھا
۲۱ اور مصر میں جس شخص نے اس کو خریدا اس نے اپنی بیوی سے (جس کا نام زلیخا تھا) کہا کہ اس کو عزت واکرام سے رکھو عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔ اس طرح ہم نے یوسف کو سرزمین (مصر) میں جگہ دی اور غرض یہ تھی کہ ہم ان کو (خواب کی) باتوں کی تعبیر سکھائیں اور خدا اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
۲۲ اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم بخشا۔ اور نیکوکاروں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں
۲۳ تو جس عورت کے گھر میں وہ رہتے تھے اس نے ان کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور دروازے بند کرکے کہنے لگی (یوسف) جلدی آؤ۔ انہوں نے کہا کہ خدا پناہ میں رکھے (وہ یعنی تمہارے میاں) تو میرے آقا ہیں انہوں نے مجھے اچھی طرح سے رکھا ہے (میں ایسا ظلم نہیں کرسکتا) بےشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے
۲۴ اور اس عورت نے ان کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا۔ اگر وہ اپنے پروردگار کی نشانی نہ دیکھتے (تو جو ہوتا ہوتا) یوں اس لیے (کیا گیا) کہ ہم ان سے برائی اور بےحیائی کو روک دیں۔ بےشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھے
۲۵ اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا اور دونوں کو دروازے کے پاس عورت کا خاوند مل گیا تو عورت بولی کہ جو شخص تمہاری بیوی کے ساتھ برا ارادہ کرے اس کی اس کے سوا کیا سزا ہے کہ یا تو قید کیا جائے یا دکھ کا عذاب دیا جائے
۲۶ یوسف نے کہا اسی نے مجھ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا۔ اس کے قبیلے میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا کہ اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا تو یہ سچی اور یوسف جھوٹا
۲۷ اور اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچا ہے
۲۸ اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا سے کہا) کہ یہ تمہارا ہی فریب ہے۔ اور کچھ شک نہیں کہ تم عورتوں کے فریب بڑے (بھاری) ہوتے ہیں
۲۹ یوسف اس بات کا خیال نہ کر۔ اور (زلیخا) تو اپنے گناہوں کی بخشش مانگ، بےشک خطا تیری ہے
۳۰ اور شہر میں عورتیں گفتگوئیں کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے۔ اور اس کی محبت اس کے دل میں گھر کرگئی ہے۔ ہم دیکھتی ہیں کہ وہ صریح گمراہی میں ہے
۳۱ جب زلیخا نے ان عورتوں کی (گفتگو جو حقیقت میں دیدار یوسف کے لیے ایک) چال (تھی) سنی تو ان کے پاس (دعوت کا) پیغام بھیجا اور ان کے لیے ایک محفل مرتب کی۔ اور (پھل تراشنے کے لیے) ہر ایک کو ایک چھری دی اور (یوسف سے) کہا کہ ان کے سامنے باہر آؤ۔ جب عورتوں نے ان کو دیکھا تو ان کا رعب (حسن) ان پر (ایسا) چھا گیا کہ (پھل تراشتے تراشتے) اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بےساختہ بول اٹھیں کہ سبحان الله (یہ حسن) یہ آدمی نہیں کوئی بزرگ فرشتہ ہے
۳۲ تب زلیخا نے کہا یہ وہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے طعنے دیتی تھیں۔ اور بےشک میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا مگر یہ بچا رہا۔ اور اگر یہ وہ کام نہ کرے گا جو میں اسے کہتی ہوں تو قید کردیا جائے گا اور ذلیل ہوگا
۳۳ یوسف نے دعا کی کہ پروردگار جس کام کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید پسند ہے۔ اور اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ ہٹائے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤں گا
۳۴ تو خدا نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان سے عورتوں کا مکر دفع کر دیا۔ بےشک وہ سننے (اور) جاننے والا ہے
۳۵ پھر باوجود اس کے کہ وہ لوگ نشان دیکھ چکے تھے ان کی رائے یہی ٹھہری کہ کچھ عرصہ کے لیے ان کو قید ہی کردیں
۳۶ اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی داخل زندان ہوئے۔ ایک نے ان میں سے کہا کہ (میں نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ شراب (کے لیے انگور) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ (میں نے بھی خواب دیکھا ہے) میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور جانور ان میں سے کھا رہے (ہیں تو) ہمیں ان کی تعبیر بتا دیجیئے کہ ہم تمہیں نیکوکار دیکھتے ہیں
۳۷ یوسف نے کہا کہ جو کھانا تم کو ملنے والا ہے وہ آنے نہیں پائے گا کہ میں اس سے پہلے تم کو اس کی تعبیر بتادوں گا۔ یہ ان (باتوں) میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے سکھائی ہیں جو لوگ خدا پر ایمان نہیں لاتے اور روز آخرت سے انکار کرتے ہیں میں ان کا مذہب چھوڑے ہوئے ہوں
۳۸ اور اپنے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے مذہب پر چلتا ہوں۔ ہمیں شایاں نہیں ہے کہ کسی چیز کو خدا کے ساتھ شریک بنائیں۔ یہ خدا کا فضل ہے ہم پر بھی اور لوگوں پر بھی ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
۳۹ میرے جیل خانے کے رفیقو! بھلا کئی جدا جدا آقا اچھے یا (ایک) خدائے یکتا وغالب؟
۴۰ جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ خدا نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ (سن رکھو کہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
۴۱ میرے جیل خانے کے رفیقو! تم میں سے ایک (جو پہلا خواب بیان کرنے والا ہے وہ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا اور جو دوسرا ہے وہ سولی دیا جائے گا اور جانور اس کا سر کھا جائیں گے۔ جو امر تم مجھ سے پوچھتے تھے وہ فیصلہ ہوچکا ہے
۴۲ اور دونوں شخصوں میں سے جس کی نسبت (یوسف نے) خیال کیا کہ وہ رہائی پا جائے گا اس سے کہا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر بھی کرنا لیکن شیطان نے ان کا اپنے آقا سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف کئی برس جیل خانے میں رہے
۴۳ اور بادشاہ نے کہا کہ میں (نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے سبز ہیں اور (سات) خشک۔ اے سردارو! اگر تم خوابوں کی تعبیر دے سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتاؤ
۴۴ انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں۔ اور ہمیں ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں آتی
۴۵ اب وہ شخص جو دونوں قیدیوں میں سے رہائی پا گیا تھا اور جسے مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی بول اٹھا کہ میں آپ کو اس کی تعبیر (لا) بتاتا ہوں مجھے (جیل خانے) جانے کی اجازت دے دیجیئے
۴۶ (غرض وہ یوسف کے پاس آیا اور کہنے لگا) یوسف اے بڑے سچے (یوسف) ہمیں اس خواب کی تعبیر بتایئے کہ سات موٹی گائیوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ اور سات خوشے سبز ہیں اور سات سوکھے تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جا (کر تعبیر بتاؤں) ۔ عجب نہیں کہ وہ (تمہاری قدر) جانیں
۴۷ انہوں نے کہا کہ تم لوگ سات سال متواتر کھیتی کرتے رہوگے تو جو (غلّہ) کاٹو تو تھوڑے سے غلّے کے سوا جو کھانے میں آئے اسے خوشوں میں ہی رہنے دینا
۴۸ پھر اس کے بعد (خشک سالی کے) سات سخت (سال) آئیں گے کہ جو (غلّہ) تم نے جمع کر رکھا ہوگا وہ اس سب کو کھا جائیں گے۔ صرف وہی تھوڑا سا رہ جائے گا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے
۴۹ پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا کہ خوب مینہ برسے گا اور لوگ اس میں رس نچوڑیں گے
۵۰ (یہ تعبیر سن کر) بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف کو میرے پاس لے آؤ۔ جب قاصد ان کے پاس گیا تو انہوں نے کہا کہ اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ بےشک میرا پروردگار ان کے مکروں سے خوب واقف ہے
۵۱ بادشاہ نے عورتوں سے پوچھا کہ بھلا اس وقت کیا ہوا تھا جب تم نے یوسف کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ سب بول اٹھیں کہ حاش َللهِ ہم نے اس میں کوئی برائی معلوم نہیں کی۔ عزیز کی عورت نے کہا اب سچی بات تو ظاہر ہو ہی گئی ہے۔ (اصل یہ ہے کہ) میں نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا اور بےشک وہ سچا ہے
۵۲ (یوسف نے کہا کہ میں نے) یہ بات اس لیے (پوچھی ہے) کہ عزیز کو یقین ہوجائے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی (امانت میں خیانت نہیں کی) اور خدا خیانت کرنے والوں کے مکروں کو روبراہ نہیں کرتا
۵۳ اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ (انسان کو) برائی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے گا۔ بےشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے
۵۴ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے میرے پاس لاؤ میں اسے اپنا مصاحب خاص بناؤں گا۔ پھر جب ان سے گفتگو کی تو کہا کہ آج سے تم ہمارے ہاں صاحب منزلت اور صاحبِ اعتبار ہو
۵۵ (یوسف نے) کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجیئے کیونکہ میں حفاظت بھی کرسکتا ہوں اور اس کام سے واقف ہوں
۵۶ اس طرح ہم نے یوسف کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے۔ ہم اپنی رحمت جس پر چاہتے ہیں کرتے ہیں اور نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے
۵۷ اور جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے رہے ان کے لیے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے
۵۸ اور یوسف کے بھائی (کنعان سے مصر میں غلّہ خریدنے کے لیے) آئے تو یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے
۵۹ جب یوسف نے ان کے لیے ان کا سامان تیار کر دیا تو کہا کہ (پھر آنا تو) جو باپ کی طرف سے تمہارا ایک اور بھائی ہے اسے بھی میرے پاس لیتے آنا۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں ناپ بھی پوری پوری دیتا ہوں اور مہمانداری بھی خوب کرتا ہوں
۶۰ اور اگر تم اسے میرے پاس نہ لاؤ گے تو نہ تمہیں میرے ہاں سے غلّہ ملے گا اور نہ تم میرے پاس ہی آسکو گے
۶۱ انہوں نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں اس کے والد سے تذکرہ کریں گے اور ہم (یہ کام) کرکے رہیں گے
۶۲ (اور یوسف نے) اپنے خدام سے کہا کہ ان کا سرمایہ (یعنی غلّے کی قیمت) ان کے شلیتوں میں رکھ دو عجب نہیں کہ جب یہ اپنے اہل وعیال میں جائیں تو اسے پہچان لیں (اور) عجب نہیں کہ پھر یہاں آئیں
۶۳ جب وہ اپنے باپ کے پاس واپس گئے تو کہنے لگے کہ ابّا (جب تک ہم بنیامین کو ساتھ نہ لے جائیں) ہمارے لیے غلّے کی بندش کر دی گئی ہے تو ہمارے ساتھ ہمارے بھائی کو بھیج دے تاکہ ہم پھر غلّہ لائیں اور ہم اس کے نگہبان ہیں
۶۴ (یعقوب نے) کہا کہ میں اس کے بارے میں تمہارا اعتبار نہیں کرتا مگر ویسا ہی جیسا اس کے بھائی کے بارے میں کیا تھا۔ سو خدا ہی بہتر نگہبان ہے۔ اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
۶۵ اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا تو دیکھا کہ ان کا سرمایہ واپس کر دیا گیا ہے۔ کہنے لگے ابّا ہمیں (اور) کیا چاہیئے (دیکھیے) یہ ہماری پونجی بھی ہمیں واپس کر دی گئی ہے۔ اب ہم اپنے اہل وعیال کے لیے پھر غلّہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی نگہبانی کریں گے اور ایک بار شتر زیادہ لائیں گے (کہ) یہ غلّہ جو ہم لائے ہیں تھوڑا ہے
۶۶ (یعقوب نے) کہا جب تک تم خدا کا عہد نہ دو کہ اس کو میرے پاس (صحیح سالم) لے آؤ گے میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجنے کا۔ مگر یہ کہ تم گھیر لیے جاؤ (یعنی بےبس ہوجاؤ تو مجبوری ہے) جب انہوں نے ان سے عہد کرلیا تو (یعقوب نے) کہا کہ جو قول وقرار ہم کر رہے ہیں اس کا خدا ضامن ہے
۶۷ اور ہدایت کی کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا۔ اور میں خدا کی تقدیر کو تم سے نہیں روک سکتا۔ بےشک حکم اسی کا ہے میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں۔ اور اہلِ توکل کو اسی پر بھروسہ رکھنا چاہیئے
۶۸ اور جب وہ ان ان مقامات سے داخل ہوئے جہاں جہاں سے (داخل ہونے کے لیے) باپ نے ان سے کہا تھا تو وہ تدبیر خدا کے حکم کو ذرا بھی نہیں ٹال سکتی تھی ہاں وہ یعقوب کے دل کی خواہش تھی جو انہوں نے پوری کی تھی۔ اور بےشک وہ صاحبِ علم تھے کیونکہ ہم نے ان کو علم سکھایا تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
۶۹ اور جب وہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو جو سلوک یہ (ہمارے ساتھ) کرتے رہے ہیں اس پر افسوس نہ کرنا
۷۰ جب ان کا اسباب تیار کر دیا تو اپنے بھائی کے شلیتے میں گلاس رکھ دیا اور پھر (جب وہ آبادی سے باہر نکل گئے تو) ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ قافلے والو تم تو چور ہو
۷۱ وہ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے
۷۲ وہ بولے کہ بادشاہ (کے پانی پینے) کا گلاس کھویا گیا ہے اور جو شخص اس کو لے آئے اس کے لیے ایک بار شتر (انعام) اور میں اس کا ضامن ہوں
۷۳ وہ کہنے لگے کہ خدا کی قسم تم کو معلوم ہے کہ ہم (اس) ملک میں اس لیے نہیں آئے کہ خرابی کریں اور نہ ہم چوری کیا کرتے ہیں
۷۴ بولے کہ اگر تم جھوٹے نکلے (یعنی چوری ثابت ہوئی) تو اس کی سزا کیا
۷۵ انہوں نے کہا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے شلیتے میں وہ دستیاب ہو وہی اس کا بدل قرار دیا جائے ہم ظالموں کو یہی سزا دیا کرتے ہیں
۷۶ پھر یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شروع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا۔ اس طرح ہم نے یوسف کے لیے تدبیر کی (ورنہ) بادشاہ کے قانون کے مطابق وہ مشیتِ خدا کے سوا اپنے بھائی کو لے نہیں سکتے تھے۔ ہم جس کے لیے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں۔ اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے
۷۷ (برادران یوسف نے) کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہو تو (کچھ عجب نہیں کہ) اس کے ایک بھائی نے بھی پہلے چوری کی تھی یوسف نے اس بات کو اپنے دل میں مخفی رکھا اور ان پر ظاہر نہ ہونے دیا (اور) کہا کہ تم بڑے بدقماش ہو۔ اور جو تم بیان کرتے ہو خدا اسے خوب جانتا ہے
۷۸ وہ کہنے لگے کہ اے عزیز اس کے والد بہت بوڑھے ہیں (اور اس سے بہت محبت رکھتے ہیں) تو (اس کو چھوڑ دیجیےاور) اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ احسان کرنے والے ہیں
۷۹ (یوسف نے) کہا کہ خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سوا کسی اور کو پکڑ لیں ایسا کریں تو ہم (بڑے) بےانصاف ہیں
۸۰ جب وہ اس سے ناامید ہوگئے تو الگ ہو کر صلاح کرنے لگے۔ سب سے بڑے نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے والد نے تم سے خدا کا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے بھی تم یوسف کے بارے میں قصور کر چکے ہو تو جب تک والد صاحب مجھے حکم نہ دیں میں تو اس جگہ سے ہلنے کا نہیں یا خدا میرے لیے کوئی اور تدبیر کرے۔ اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
۸۱ تم سب والد صاحب کے پاس واپس جاؤ اور کہو کہ ابا آپ کے صاحبزادے نے (وہاں جا کر) چوری کی۔ اور ہم نے اپنی دانست کے مطابق آپ سے (اس کے لے آنے کا) عہد کیا تھا مگر ہم غیب کی باتوں کو جاننے اور یاد رکھنے والے تو نہیں تھے
۸۲ اور جس بستی میں ہم (ٹھہرے) تھے وہاں سے (یعنی اہل مصر سے) اور جس قافلے میں آئے ہیں اس سے دریافت کر لیجیئے اور ہم اس بیان میں بالکل سچے ہیں
۸۳ (جب انہوں نے یہ بات یعقوب سے آ کر کہی تو) انہوں نے کہا کہ (حقیقت یوں نہیں ہے) بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے بنالی ہے تو صبر ہی بہتر ہے۔ عجب نہیں کہ خدا ان سب کو میرے پاس لے آئے۔ بےشک وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
۸۴ پھر ان کے پاس سے چلے گئے اور کہنے لگے ہائے افسوس یوسف (ہائے افسوس) اور رنج والم میں (اس قدر روئے کہ) ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور ان کا دل غم سے بھر رہا تھا
۸۵ بیٹے کہنے لگے کہ والله اگر آپ یوسف کو اسی طرح یاد ہی کرتے رہیں گے تو یا تو بیمار ہوجائیں گے یا جان ہی دے دیں گے
۸۶ انہوں نے کہا کہ میں اپنے غم واندوہ کا اظہار خدا سے کرتا ہوں۔ اور خدا کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
۸۷ بیٹا (یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ کہ خدا کی رحمت سے بےایمان لوگ ناامید ہوا کرتے ہیں
۸۸ جب وہ یوسف کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ عزیز ہمیں اور ہمارے اہل وعیال کو بڑی تکلیف ہو رہی ہے اور ہم تھوڑا سا سرمایہ لائے ہیں آپ ہمیں (اس کے عوض) پورا غلّہ دے دیجیئے اور خیرات کیجیئے۔ کہ خدا خیرات کرنے والوں کو ثواب دیتا ہے
۸۹ (یوسف نے) کہا تمہیں معلوم ہے جب تم نادانی میں پھنسے ہوئے تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا
۹۰ وہ بولے کیا تم ہی یوسف ہو؟ انہوں نے کہا ہاں میں ہی یوسف ہوں۔ اور (بنیامین کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے) یہ میرا بھائی ہے خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے۔ جو شخص خدا سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے تو خدا نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا
۹۱ وہ بولے خدا کی قسم خدا نے تم کو ہم پر فضیلت بخشی ہے اور بےشک ہم خطاکار تھے
۹۲ (یوسف نے) کہا کہ آج کے دن سے تم پر کچھ عتاب (وملامت) نہیں ہے۔ خدا تم کو معاف کرے۔ اور وہ بہت رحم کرنے والا ہے
۹۳ یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔ اور اپنے تمام اہل وعیال کو میرے پاس لے آؤ
۹۴ اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے والد کہنے لگے کہ اگر مجھ کو یہ نہ کہو کہ (بوڑھا) بہک گیا ہے تو مجھے تو یوسف کی بو آ رہی ہے
۹۵ وہ بولے کہ والله آپ اسی قدیم غلطی میں (مبتلا) ہیں
۹۶ جب خوشخبری دینے والا آ پہنچا تو کرتہ یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہو گئے (اور بیٹوں سے) کہنے لگے کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خدا کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
۹۷ بیٹوں نے کہا کہ ابا ہمارے لیے ہمارے گناہ کی مغفرت مانگیئے۔ بےشک ہم خطاکار تھے
۹۸ انہوں نے کہا کہ میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے بخشش مانگوں گا۔ بےشک وہ بخشنے والا مہربان ہے
۹۹ جب یہ (سب لوگ) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا مصر میں داخل ہو جائیے خدا نے چاہا تو جمع خاطر سے رہیئے گا
۱۰۰ اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب یوسفؑ کے آگے سجدہ میں گر پڑے اور (اس وقت) یوسف نے کہا ابا جان یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے (بچپن میں) دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اسے سچ کر دکھایا اور اس نے مجھ پر (بہت سے) احسان کئے ہیں کہ مجھ کو جیل خانے سے نکالا۔ اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا۔ آپ کو گاؤں سے یہاں لایا۔ بےشک میرا پروردگار جو چاہتا ہے تدبیر سے کرتا ہے۔ وہ دانا (اور) حکمت والا ہے
۱۰۱ (جب یہ سب باتیں ہولیں تو یوسف نے خدا سے دعا کی کہ) اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو حکومت سے بہرہ دیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے۔ تو مجھے (دنیا سے) اپنی اطاعت (کی حالت) میں اٹھائیو اور (آخرت میں) اپنے نیک بندوں میں داخل کیجیو
۱۰۲ (اے پیغمبر) یہ اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں اور جب برادران یوسف نے اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے تو تم ان کے پاس تو نہ تھے
۱۰۳ اور بہت سے آدمی گو تم (کتنی ہی) خواہش کرو ایمان لانے والے نہیں ہیں
۱۰۴ اور تم ان سے اس (خیر خواہی) کا کچھ صلا بھی تو نہیں مانگتے۔ یہ قرآن اور کچھ نہیں تمام عالم کے لیے نصیحت ہے
۱۰۵ اور آسمان و زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں جن پر یہ گزرتے ہیں اور ان سے اعراض کرتے ہیں
۱۰۶ اور یہ اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ مگر (اس کے ساتھ) شرک کرتے ہیں
۱۰۷ کیا یہ اس (بات) سے بےخوف ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہو کر ان کو ڈھانپ لے یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو
۱۰۸ کہہ دو میرا رستہ تو یہ ہے میں خدا کی طرف بلاتا ہوں (از روئے یقین وبرہان) سمجھ بوجھ کر میں بھی (لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی۔ اور خدا پاک ہے۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں
۱۰۹ اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں کے رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر (وسیاحت) نہیں کی کہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا۔ اور متّقیوں کے لیے آخرت کا گھر بہت اچھا ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں؟
۱۱۰ یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہوگئے اور انہوں نے خیال کیا کہ اپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کہی تھی (اس میں) وہ سچے نہ نکلے تو ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی۔ پھر جسے ہم نے چاہا بچا دیا۔ اور ہمارا عذاب (اتر کر) گنہگار لوگوں سے پھرا نہیں کرتا
۱۱۱ ان کے قصے میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ (قرآن) ایسی بات نہیں ہے جو (اپنے دل سے) بنائی گئی ہو بلکہ جو (کتابیں) اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کی تصدیق (کرنے والا) ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
١ الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ
٢ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
٣ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ
٤ إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ
٥ قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ
٦ وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
٧ لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ
٨ إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
٩ اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ
١٠ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ
١١ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ
١٢ أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
١٣ قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ
١٤ قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ
١٥ فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
١٦ وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ
١٧ قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ
١٨ وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
١٩ وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
٢٠ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ
٢١ وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
٢٢ وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
٢٣ وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
٢٤ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
٢٥ وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَنْ يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
٢٦ قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
٢٧ وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِينَ
٢٨ فَلَمَّا رَأَىٰ قَمِيصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ كَيْدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ
٢٩ يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۚ وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ
٣٠ وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
٣١ فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ
٣٢ قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِنْ لَمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ
٣٣ قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجَاهِلِينَ
٣٤ فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
٣٥ ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِينٍ
٣٦ وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
٣٧ قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ
٣٨ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِكَ بِاللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
٣٩ يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
٤٠ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
٤١ يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَأْسِهِ ۚ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
٤٢ وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
٤٣ وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَىٰ سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ ۖ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِنْ كُنْتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ
٤٤ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ۖ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ
٤٥ وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَا أُنَبِّئُكُمْ بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ
٤٦ يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ
٤٧ قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تَأْكُلُونَ
٤٨ ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ
٤٩ ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ
٥٠ وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
٥١ قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
٥٢ ذَٰلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ
٥٣ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ
٥٤ وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ
٥٥ قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ
٥٦ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
٥٧ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
٥٨ وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ
٥٩ وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَكُمْ مِنْ أَبِيكُمْ ۚ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ
٦٠ فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِي وَلَا تَقْرَبُونِ
٦١ قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ
٦٢ وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انْقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
٦٣ فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَىٰ أَبِيهِمْ قَالُوا يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
٦٤ قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنْتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِنْ قَبْلُ ۖ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
٦٥ وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ
٦٦ قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَنْ يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
٦٧ وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
٦٨ وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا كَانَ يُغْنِي عَنْهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
٦٩ وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
٧٠ فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ
٧١ قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ
٧٢ قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ
٧٣ قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ
٧٤ قَالُوا فَمَا جَزَاؤُهُ إِنْ كُنْتُمْ كَاذِبِينَ
٧٥ قَالُوا جَزَاؤُهُ مَنْ وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ
٧٦ فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
٧٧ قَالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
٧٨ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
٧٩ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ
٨٠ فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُمْ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
٨١ ارْجِعُوا إِلَىٰ أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ
٨٢ وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ
٨٣ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
٨٤ وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
٨٥ قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّىٰ تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ
٨٦ قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
٨٧ يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ
٨٨ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
٨٩ قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ
٩٠ قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنْتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
٩١ قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ
٩٢ قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
٩٣ اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ
٩٤ وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ
٩٥ قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلَالِكَ الْقَدِيمِ
٩٦ فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
٩٧ قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ
٩٨ قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
٩٩ فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ
١٠٠ وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
١٠١ رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
١٠٢ ذَٰلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
١٠٣ وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ
١٠٤ وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ
١٠٥ وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ
١٠٦ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ
١٠٧ أَفَأَمِنُوا أَنْ تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
١٠٨ قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
١٠٩ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
١١٠ حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَنْ نَشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ
١١١ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
In the name of Allah, the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
1 Alif, Lam, Ra. These are the verses of the clear Book.
2 Indeed, We have sent it down as an Arabic Qur’an that you might understand.
3 We relate to you, [O Muhammad], the best of stories in what We have revealed to you of this Qur’an although you were, before it, among the unaware.
4 [Of these stories mention] when Joseph said to his father, “O my father, indeed I have seen [in a dream] eleven stars and the sun and the moon; I saw them prostrating to me.”
5 He said, “O my son, do not relate your vision to your brothers or they will contrive against you a plan. Indeed Satan, to man, is a manifest enemy.
6 And thus will your Lord choose you and teach you the interpretation of narratives and complete His favor upon you and upon the family of Jacob, as He completed it upon your fathers before, Abraham and Isaac. Indeed, your Lord is Knowing and Wise.”
7 Certainly were there in Joseph and his brothers signs for those who ask,
8 When they said, “Joseph and his brother are more beloved to our father than we, while we are a clan. Indeed, our father is in clear error.
9 Kill Joseph or cast him out to [another] land; the countenance of your father will [then] be only for you, and you will be after that a righteous people.”
10 Said a speaker among them, “Do not kill Joseph but throw him into the bottom of the well; some travelers will pick him up – if you would do [something].”
11 They said, “O our father, why do you not entrust us with Joseph while indeed, we are to him sincere counselors?
12 Send him with us tomorrow that he may eat well and play. And indeed, we will be his guardians.
13 [Jacob] said, “Indeed, it saddens me that you should take him, and I fear that a wolf would eat him while you are of him unaware.”
14 They said, “If a wolf should eat him while we are a [strong] clan, indeed, we would then be losers.”
15 So when they took him [out] and agreed to put him into the bottom of the well… But We inspired to him, “You will surely inform them [someday] about this affair of theirs while they do not perceive [your identity].”
16 And they came to their father at night, weeping.
17 They said, “O our father, indeed we went racing each other and left Joseph with our possessions, and a wolf ate him. But you would not believe us, even if we were truthful.”
18 And they brought upon his shirt false blood. [Jacob] said, “Rather, your souls have enticed you to something, so patience is most fitting. And Allah is the one sought for help against that which you describe.”
19 And there came a company of travelers; then they sent their water drawer, and he let down his bucket. He said, “Good news! Here is a boy.” And they concealed him, [taking him] as merchandise; and Allah was knowing of what they did.
20 And they sold him for a reduced price – a few dirhams – and they were, concerning him, of those content with little.
21 And the one from Egypt who bought him said to his wife, “Make his residence comfortable. Perhaps he will benefit us, or we will adopt him as a son.” And thus, We established Joseph in the land that We might teach him the interpretation of events. And Allah is predominant over His affair, but most of the people do not know.
22 And when Joseph reached maturity, We gave him judgment and knowledge. And thus We reward the doers of good.
23 And she, in whose house he was, sought to seduce him. She closed the doors and said, “Come, you.” He said, “[I seek] the refuge of Allah. Indeed, he is my master, who has made good my residence. Indeed, wrongdoers will not succeed.”
24 And she certainly determined [to seduce] him, and he would have inclined to her had he not seen the proof of his Lord. And thus [it was] that We should avert from him evil and immorality. Indeed, he was of Our chosen servants.
25 And they both raced to the door, and she tore his shirt from the back, and they found her husband at the door. She said, “What is the recompense of one who intended evil for your wife but that he be imprisoned or a painful punishment?”
26 [Joseph] said, “It was she who sought to seduce me.” And a witness from her family testified. “If his shirt is torn from the front, then she has told the truth, and he is of the liars.
27 But if his shirt is torn from the back, then she has lied, and he is of the truthful.”
28 So when her husband saw his shirt torn from the back, he said, “Indeed, it is of the women’s plan. Indeed, your plan is great.
29 Joseph, ignore this. And, [my wife], ask forgiveness for your sin. Indeed, you were of the sinful.”
30 And women in the city said, “The wife of al-‘Azeez is seeking to seduce her slave boy; he has impassioned her with love. Indeed, we see her [to be] in clear error.”
31 So when she heard of their scheming, she sent for them and prepared for them a banquet and gave each one of them a knife and said [to Joseph], “Come out before them.” And when they saw him, they greatly admired him and cut their hands and said, “Perfect is Allah! This is not a man; this is none but a noble angel.”
32 She said, “That is the one about whom you blamed me. And I certainly sought to seduce him, but he firmly refused; and if he will not do what I order him, he will surely be imprisoned and will be of those debased.”
33 He said, “My Lord, prison is more to my liking than that to which they invite me. And if You do not avert from me their plan, I might incline toward them and [thus] be of the ignorant.”
34 So his Lord responded to him and averted from him their plan. Indeed, He is the Hearing, the Knowing.
35 Then it appeared to them after they had seen the signs that al-‘Azeez should surely imprison him for a time.
36 And there entered the prison with him two young men. One of them said, “Indeed, I have seen myself [in a dream] pressing wine.” The other said, “Indeed, I have seen myself carrying upon my head [some] bread, from which the birds were eating. Inform us of its interpretation; indeed, we see you to be of those who do good.”
37 He said, “You will not receive food that is provided to you except that I will inform you of its interpretation before it comes to you. That is from what my Lord has taught me. Indeed, I have left the religion of a people who do not believe in Allah, and they, in the Hereafter, are disbelievers.
38 And I have followed the religion of my fathers, Abraham, Isaac and Jacob. And it was not for us to associate anything with Allah. That is from the favor of Allah upon us and upon the people, but most of the people are not grateful.
39 O [my] two companions of prison, are separate lords better or Allah, the One, the Prevailing?
40 You worship not besides Him except [mere] names you have named them, you and your fathers, for which Allah has sent down no authority. Legislation is not but for Allah. He has commanded that you worship not except Him. That is the correct religion, but most of the people do not know.
41 O two companions of prison, as for one of you, he will give drink to his master of wine; but as for the other, he will be crucified, and the birds will eat from his head. The matter has been decreed about which you both inquire.”
42 And he said to the one whom he knew would go free, “Mention me before your master.” But Satan made him forget the mention [to] his master, and Joseph remained in prison several years.
43 And [subsequently] the king said, “Indeed, I have seen [in a dream] seven fat cows being eaten by seven [that were] lean, and seven green spikes [of grain] and others [that were] dry. O eminent ones, explain to me my vision, if you should interpret visions.”
44 They said, “[It is but] a mixture of false dreams, and we are not learned in the interpretation of dreams.”
45 But the one who was freed and remembered after a time said, “I will inform you of its interpretation, so send me forth.”
46 [He said], “Joseph, O man of truth, explain to us about seven fat cows eaten by seven [that were] lean, and seven green spikes [of grain] and others [that were] dry – that I may return to the people; perhaps they will know [about you].”
47 [Joseph] said, “You will plant for seven years consecutively; and what you harvest leave in its spikes, except a little from which you will eat.
48 Then will come after that seven difficult [years] which will consume what you saved for them, except a little from which you will store.
49 Then will come after that a year in which the people will be given rain and in which they will press [olives and grapes].”
50 And the king said, “Bring him to me.” But when the messenger came to him, [Joseph] said, “Return to your master and ask him what is the case of the women who cut their hands. Indeed, my Lord is Knowing of their plan.”
51 Said [the king to the women], “What was your condition when you sought to seduce Joseph?” They said, “Perfect is Allah! We know about him no evil.” The wife of al-‘Azeez said, “Now the truth has become evident. It was I who sought to seduce him, and indeed, he is of the truthful.
52 That is so al-‘Azeez will know that I did not betray him in [his] absence and that Allah does not guide the plan of betrayers.
53 And I do not acquit myself. Indeed, the soul is a persistent enjoiner of evil, except those upon which my Lord has mercy. Indeed, my Lord is Forgiving and Merciful.”
54 And the king said, “Bring him to me; I will appoint him exclusively for myself.” And when he spoke to him, he said, “Indeed, you are today established [in position] and trusted.”
55 [Joseph] said, “Appoint me over the storehouses of the land. Indeed, I will be a knowing guardian.”
56 And thus We established Joseph in the land to settle therein wherever he willed. We touch with Our mercy whom We will, and We do not allow to be lost the reward of those who do good.
57 And the reward of the Hereafter is better for those who believed and were fearing Allah.
58 And the brothers of Joseph came [seeking food], and they entered upon him; and he recognized them, but he was to them unknown.
59 And when he had furnished them with their supplies, he said, “Bring me a brother of yours from your father. Do not you see that I give full measure and that I am the best of accommodators?
60 But if you do not bring him to me, no measure will there be [hereafter] for you from me, nor will you approach me.”
61 They said, “We will attempt to dissuade his father from [keeping] him, and indeed, we will do [it].”
62 And [Joseph] said to his servants, “Put their merchandise into their saddlebags so they might recognize it when they have gone back to their people that perhaps they will [again] return.”
63 So when they returned to their father, they said, “O our father, [further] measure has been denied to us, so send with us our brother [that] we will be given measure. And indeed, we will be his guardians.”
64 He said, “Should I entrust you with him except [under coercion] as I entrusted you with his brother before? But Allah is the best guardian, and He is the most merciful of the merciful.”
65 And when they opened their baggage, they found their merchandise returned to them. They said, “O our father, what [more] could we desire? This is our merchandise returned to us. And we will obtain supplies for our family and protect our brother and obtain an increase of a camel’s load; that is an easy measurement.”
66 [Jacob] said, “Never will I send him with you until you give me a promise by Allah that you will bring him [back] to me, unless you should be surrounded by enemies.” And when they had given their promise, he said, “Allah, over what we say, is Witness.”
67 And he said, “O my sons, do not enter from one gate but enter from different gates; and I cannot avail you against [the decree of] Allah at all. The decision is only for Allah; upon Him I have relied, and upon Him let those who would rely [indeed] rely.”
68 And when they entered from where their father had ordered them, it did not avail them against Allah at all except [it was] a need within the soul of Jacob, which he satisfied. And indeed, he was a possessor of knowledge because of what We had taught him, but most of the people do not know.
69 And when they entered upon Joseph, he took his brother to himself; he said, “Indeed, I am your brother, so do not despair over what they used to do [to me].”
70 So when he had furnished them with their supplies, he put the [gold measuring] bowl into the bag of his brother. Then an announcer called out, “O caravan, indeed you are thieves.”
71 They said while approaching them, “What is it you are missing?”
72 They said, “We are missing the measure of the king. And for he who produces it is [the reward of] a camel’s load, and I am responsible for it.”
73 They said, “By Allah, you have certainly known that we did not come to cause corruption in the land, and we have not been thieves.”
74 The accusers said, “Then what would be its recompense if you should be liars?”
75 [The brothers] said, “Its recompense is that he in whose bag it is found – he [himself] will be its recompense. Thus do we recompense the wrongdoers.”
76 So he began [the search] with their bags before the bag of his brother; then he extracted it from the bag of his brother. Thus did We plan for Joseph. He could not have taken his brother within the religion of the king except that Allah willed. We raise in degrees whom We will, but over every possessor of knowledge is one [more] knowing.
77 They said, “If he steals – a brother of his has stolen before.” But Joseph kept it within himself and did not reveal it to them. He said, “You are worse in position, and Allah is most knowing of what you describe.”
78 They said, “O ‘Azeez, indeed he has a father [who is] an old man, so take one of us in place of him. Indeed, we see you as a doer of good.”
79 He said, “[I seek] the refuge of Allah [to prevent] that we take except him with whom we found our possession. Indeed, we would then be unjust.”
80 So when they had despaired of him, they secluded themselves in private consultation. The eldest of them said, “Do you not know that your father has taken upon you an oath by Allah and [that] before you failed in [your duty to] Joseph? So I will never leave [this] land until my father permits me or Allah decides for me, and He is the best of judges.
81 Return to your father and say, “O our father, indeed your son has stolen, and we did not testify except to what we knew. And we were not witnesses of the unseen,
82 And ask the city in which we were and the caravan in which we came – and indeed, we are truthful,”
83 [Jacob] said, “Rather, your souls have enticed you to something, so patience is most fitting. Perhaps Allah will bring them to me all together. Indeed it is He who is the Knowing, the Wise.”
84 And he turned away from them and said, “Oh, my sorrow over Joseph,” and his eyes became white from grief, for he was [of that] a suppressor.
85 They said, “By Allah, you will not cease remembering Joseph until you become fatally ill or become of those who perish.”
86 He said, “I only complain of my suffering and my grief to Allah, and I know from Allah that which you do not know.
87 O my sons, go and find out about Joseph and his brother and despair not of relief from Allah. Indeed, no one despairs of relief from Allah except the disbelieving people.”
88 So when they entered upon Joseph, they said, “O ‘Azeez, adversity has touched us and our family, and we have come with goods poor in quality, but give us full measure and be charitable to us. Indeed, Allah rewards the charitable.”
89 He said, “Do you know what you did with Joseph and his brother when you were ignorant?”
90 They said, “Are you indeed Joseph?” He said “I am Joseph, and this is my brother. Allah has certainly favored us. Indeed, he who fears Allah and is patient, then indeed, Allah does not allow to be lost the reward of those who do good.”
91 They said, “By Allah, certainly has Allah preferred you over us, and indeed, we have been sinners.”
92 He said, “No blame will there be upon you today. Allah will forgive you; and He is the most merciful of the merciful.”
93 Take this, my shirt, and cast it over the face of my father; he will become seeing. And bring me your family, all together.”
94 And when the caravan departed [from Egypt], their father said, “Indeed, I find the smell of Joseph [and would say that he was alive] if you did not think me weakened in mind.”
95 They said, “By Allah, indeed you are in your [same] old error.”
96 And when the bearer of good tidings arrived, he cast it over his face, and he returned [once again] seeing. He said, “Did I not tell you that I know from Allah that which you do not know?”
97 They said, “O our father, ask for us forgiveness of our sins; indeed, we have been sinners.”
98 He said, “I will ask forgiveness for you from my Lord. Indeed, it is He who is the Forgiving, the Merciful.”
99 And when they entered upon Joseph, he took his parents to himself and said, “Enter Egypt, Allah willing, safe [and secure].”
100 And he raised his parents upon the throne, and they bowed to him in prostration. And he said, “O my father, this is the explanation of my vision of before. My Lord has made it reality. And He was certainly good to me when He took me out of prison and brought you [here] from bedouin life after Satan had induced [estrangement] between me and my brothers. Indeed, my Lord is Subtle in what He wills. Indeed, it is He who is the Knowing, the Wise.
101 My Lord, You have given me [something] of sovereignty and taught me of the interpretation of dreams. Creator of the heavens and earth, You are my protector in this world and in the Hereafter. Cause me to die a Muslim and join me with the righteous.”
102 That is from the news of the unseen which We reveal, [O Muhammad], to you. And you were not with them when they put together their plan while they conspired.
103 And most of the people, although you strive [for it], are not believers.
104 And you do not ask of them for it any payment. It is not except a reminder to the worlds.
105 And how many a sign within the heavens and earth do they pass over while they, therefrom, are turning away.
106 And most of them believe not in Allah except while they associate others with Him.
107 Then do they feel secure that there will not come to them an overwhelming [aspect] of the punishment of Allah or that the Hour will not come upon them suddenly while they do not perceive?
108 Say, “This is my way; I invite to Allah with insight, I and those who follow me. And exalted is Allah; and I am not of those who associate others with Him.”
109 And We sent not before you [as messengers] except men to whom We revealed from among the people of cities. So have they not traveled through the earth and observed how was the end of those before them? And the home of the Hereafter is best for those who fear Allah; then will you not reason?
110 [They continued] until, when the messengers despaired and were certain that they had been denied, there came to them Our victory, and whoever We willed was saved. And Our punishment cannot be repelled from the people who are criminals.
111 There was certainly in their stories a lesson for those of understanding. Never was the Qur’an a narration invented, but a confirmation of what was before it and a detailed explanation of all things and guidance and mercy for a people who believe.
奉至仁至慈的真主之名
1 艾列弗,俩目,拉仪。这些是明确的天经的节文。
2 我确已把它降示成阿拉伯文的《古兰经》,以便你们了解。
3 我借著启示你这部《古兰经》而告诉你最美的故事,在这以前,你确是疏忽的。
4 当时优素福对他父亲说:我的父亲啊!我确已梦见十一颗星和太阳、月亮,我梦见他们向我鞠躬。
5 他说:我的孩子啊!你不要把你的梦告诉你的哥哥们,以免他们谋害你;恶魔确是人类公开的仇敌。
6 你的主这样拣选你,他教你圆梦,他要完成对你和对叶尔孤白的后裔的恩典,犹如他以前曾完成对你的祖先易卜拉欣和易司哈格的恩典一样,你的主确是全知的,确是至睿的。
7 在优素福和他哥哥们(的故事)里,对于询问者确有许多迹象。
8 当时,他们说:优素福和他弟弟,在我们的父亲看来,是比我们还可爱的,而我们是一个(强壮的)团体,我们的父亲确是在明显的迷误之中。
9 (他们说:)你们把优素福杀掉,或把他抛弃在荒远的地方,你们父亲的慈爱,就会专归于你们了,而你们以后还可以成为正直的人。
10 他们当中有一个发言人曾说:你们不要杀死优素福,你们可以把他投入井里。要是你们那样做了,一些过路的旅客会把他拾去的。
11 他们说:我们的父亲啊!你对于优素福怎么不信任我们呢?我们对于他确是怀好意的。
12 明天,请你让他和我们一同去娱乐游戏,我们一定保护他。
13 他说:你们把他带走,我实在放心不下,我生怕在你们疏忽的时候,狼把他吃了。
14 他们说:我们是一个(强壮的)团体,狼却吃了他,那我们真是该死了。
15 当他们把他带走,并且一致决定把他投入井底的时候,我启示他说:将来你必定要把他们这件事,在他们不知不觉的时候,告诉他们。
16 傍晚,他们哭著来见他们的父亲,
17 他们说:我们的父亲啊!我们赛跑时,使优素福留守行李,不料狼把他吃了。你是绝不会相信我们的,即使我们说的是实话。
18 他们用假血染了优素福的衬衣,拿来给他们的父亲看。他说:不然!你们的私欲怂恿你们干了这件事;我只有很好地忍耐,对你们所叙述的事,我只能求助于真主!
19 旅客们来了,他们派人去汲水,他把水桶缒下井去,他说:啊!好消息!这是一个少年。他们秘密地把他当作货物,真主是全知他们的行为的。
20 他们以廉价–可数的几个银币–出卖了他,他们是不怜惜他的。
21 那购买他的埃及人对自己的妻子说:你应当优待他,他也许对我们有好处,或者我们抚养他做义子。我这样使优素福在大地上获得地位,以便我教他圆梦。真主对于其事务是自主的,但人们大半不知道。
22 当他达到壮年时,我把智慧和学识赏赐他,我这样报酬行善者。
23 他的女主人,把所有的门都紧紧地关闭起来,然后,勾引他说:快来(拥抱)我啊!他说:求真主保佑我!他是我的主,他已优待了我。不义的人必定不会成功。
24 她确已向往他,他也向往她,要不是他看见他的主的明证。我这样为他排除罪恶和丑事,他确是我的一个忠实的仆人。
25 他俩争先恐后地奔向大门。那时她已把他的衬衣从后面撕破了,他俩在大门口遇见她的丈夫,她说:想奸污你的眷属者,他的报酬只有监禁或痛惩。
26 他说:是她勾引我。她家里的一个人作证说:如果他的衬衣是从前面撕破 的,那她说的是实话,而他是说谎的;
27 如果他的衬衣是从后面撕破的,那末她已说了谎话,而他说的是实话。
28 当他看见他的衬衣是从后面撕破的时候,他说:这确是你们的诡计,你们的 诡计确是重大的。
29 (又说):优素福,你避开此事吧!(我的妻子,)你为你的罪过而求饶吧,你原是错误的!
30 都城里的一些妇女说:权贵的妻子勾引她的仆人,他迷惑了她,我们认为她 确是在明显的迷误之中的。
31 她听到了她们狡猾的流言蜚语,就派人去把她们邀请来,并为她们预备了一桌席,发给她们每人一把小刀,她(对优素福)说:你出去见见她们吧。当她们看见他的时候,她们赞扬了他,(她们都被迷住了),以致餐刀割伤了自己的手。她们说:啊呀!这不是一个凡夫,而是一位高洁的天神。
32 她说:这就是你们为他而责备我的那个人。我确已勾引他,但他洁身自好。如果他再不听从我的命令,他势必要坐牢,他势必成为自甘下贱的人。
33 他说:我的主啊!我宁愿坐牢,也不愿响应她们的召唤。如果你不为我排除她们的诡计,我将依恋她们,我将变成愚人。
34 他的主就答应了他,并且为他排除了她们的诡计。他确是全聪的,确是全知的。
35 他们看见了许多迹象之后,觉得必须把他监禁一个时期。
36 有两个青年和他一同入狱,这个说:我确已梦见我榨葡萄汁(酿酒)。那个说:我确已梦见我的头上顶著一个大饼,众鸟飞来啄食。请你替我们圆梦,我们的确认为你是行善的。
37 他说:无论谁送什么食物给你俩之前,我能告诉你们送的是什么。这是我的主教给我的。有一个民族不信仰真主,不信仰后世,我确已抛弃他们的宗教。
38 我遵循我的祖先–易卜拉欣、易司哈格、叶尔孤白的宗教。我们不该以任何物配真主,这是真主施于我们和世人的恩惠,但世人大半不感谢。
39 两位难友啊!是许多涣散的主宰更好呢?还是独一万能的真主更好呢?
40 你们舍真主而崇拜的,只是你们和你们的祖先所定的一些(偶像的)名称,真主并未加以证实,一切判决只归真主。他命令你们只崇拜他。这才是正教。但世人大半不知道。
41 同监的两位朋友啊!你们俩中有一个要替他的主人斟酒,有一个要被钉死在十字架上,而众鸟飞到他的头上来吃他。你俩所询问的事情,已被判决了。
42 他对两人中预料将会获释的人说:请你在你主人面前替我申冤。但恶魔使他忘记在他主人面前替优素福申冤,以至他在监里坐了几年。
43 国王说:我确已梦见七头胖黄牛,被七头瘦黄牛吃掉了,又梦见七穗青麦子,和七穗乾麦子。侍从们呀!你们替我圆圆这个梦。如果你们是会圆梦的人。
44 他们说:这是一个噩梦,而且我们不会圆梦。
45 曾被赦宥并且在一个时期之后想起优素福的那个青年说:我将告诉你们关于 这个梦的意思,请你们派我去吧。
46 优素福,忠实的人呀!请你为我们圆圆这个梦,七头胖黄牛,被七头瘦黄牛吃掉了,又有七穗青麦子,和七穗乾麦子。我好回去告诉人们,让他们知道这个梦 的意义。
47 他说:你们要连种七年,凡你们所收获的麦子,都让它存在穗子上,只把你们所吃的少量的麦子打下来。
48 此后,将有七个荒年,来把你们所预备的麦子吃光了,只剩得你们所储藏的少量麦子。
49 此后,将有一个丰年。人们在那一年中要得雨水,要榨葡萄酿酒。
50 国王说:你们带他来见我吧!当使者到来的时候,他说:请你回去问问你的主人,曾经把自己的手割伤了的那些妇女,现在是怎样的?我的主是全知她们的诡计的。
51 国王说:你们勾引优素福的时候,你们的实情是什么?她们说:啊呀!我们不知道他有一点罪过。权贵的妻子说:现在真相大白了,是我勾引他,他确是诚实的人。
52 这是因为要他知道,在背地里我并没有不忠于他的行为,并且要他知道,真主不诱导不忠者的诡计。
53 (他说):我不自称清白;人性的确是怂恿人作恶的,除非我的主所怜悯的人。我的主确是至赦的,确是至慈的。
54 国王说:你们带他来见我,我要使他为我自己所专有。他对国王说话的时候,国王说:今天你在我的御前确是有崇高品级的,是可以信任的人。
55 他说:请你任命我管理全国的仓库,我确是一个内行的保管者。
56 我这样使优素福在国内获得权力,在他所要的地方占优势,我把我的慈恩降给我所意欲者,我不会让行善者徒劳无酬。
57 后世的报酬,对于信道而且敬畏的人,将是更好的。
58 优素福的哥哥们来了,他们进去见他。他认出了他们,而他们却没有认出他。
59 当他以他们所需的粮食供给他们之后,他说:你们把你们同父的弟弟带来见我吧!难道你们不见我把足量的粮食给你们,而且我是最好的东道主吗?
60 如果你们不带他来见我,你们就不能从我这里购买一颗粮食,你们也不得临近我。
61 他们说:我们要恳求他父亲允许我们带他来见你,我们必定这样做。
62 他对他的僮仆们说:你们把他们的财物放在他们的粮袋里,他们回去的时候也许会认出这些财物,也许会再来一趟。
63 他们回去见了他们的父亲,说:我们的父亲啊!人家不准我们再籴粮了,请你派我们的弟弟和我们一同去,我们就能籴粮;我们一定把他保护好。
64 他说:对于他我能信任你们,正如以前对于他哥哥我信任你们一样吗?真主是最善于保护的,也是最慈爱的。
65 当他们打开自己的粮袋的时候,发现他们的财物已退还他们了,他们说:我们的父亲啊!我们还要求什么呢?这是我们的财物,已退还我们了,我们要为我们的眷属籴粮,要保护我们的弟弟,我们可以多籴一驮粮,那是容易获得的粮食。
66 他说:我不派他和你们一同去,直到你们指真主而和我立誓约,你们誓必带他回来见我,除非你们全遭祸患。当他们和他立誓约的时候,他说:真主是监察我们的誓约的。
67 他说:我的孩子们,不要从一道城门进城,应当分散开,从几道城门进去。我对于真主的(判决),毫无裨益于你们;一切判决只归真主,我只信赖他,让一切信赖者都只信赖他吧!
68 当他们遵照他们父亲的命令而进城的时候,他对于真主的判决没有丝毫裨益,但那是叶尔孤白心中的一种希望。他已把它表白出来。他曾受我的教诲,所以他确是有知识的,但世人大半不知道。
69 当他们进去见优素福的时候,他拥抱他弟弟,他说:我确是你哥哥,你不要为他们过去的所作所为而悲伤吧。
70 当地以他们所需的粮食供给他们的时候,他(使人)把一只酒杯放在他弟弟的粮袋里,然后一个传唤者传唤说:队商啊!你们确是一伙小偷。
71 他们转回来说:你们丢了什么?
72 他们说:我们丢失了国王的酒杯;谁拿酒杯来还,给谁-驮粮食,我是保证人。
73 他们说:指真主发誓,你们知道,我们不是到这个地方来捣乱的,我们向来不是小偷。
74 他们说:偷窃者应受什么处分呢?如果你们是说谎的人。
75 他们说:偷窃者应受的处罚,是在谁的粮袋里搜出酒杯来,就把谁当做奴仆。我们是这样惩罚不义者的。
76 优素福在检查他弟弟的粮袋之前,先检查了他们的粮袋。随后,在他弟弟的粮袋里查出了那只酒杯。我这样为优素福定计。按照国王的法律,他不得把他弟弟当作奴仆,但真主意欲他那样做。我把我所意欲者提升若干级,每个有知识的人上面,都有一个全知者。
77 他们说:如果他偷窃,那末,他有一个哥哥从前就偷窃过。优素福把这句话隐藏在心中,没有对他们表示出来,他暗暗他说:你们的处境是更恶劣的。真主是知道你们所叙述的事情的。
78 他们说:权贵啊!他的确有一位龙钟的老父;请你以我们中的一人代替他当奴仆吧。我们的确认为你是行善的。
79 他说:愿真主保佑我们,我们只把发现其粮袋里有酒杯者当做奴仆;否则,我们必定是不义的人。
80 当他们对优素福绝望的时候,他们离席而密秘会议,他们的大哥说:你们的父亲曾要求你们指真主发誓,难道你们不知道吗?从前,你们曾怠慢了优素福。我绝不离开这个地方,直到父亲允许我,或真主为我而判决,他是最公正的判决者。
81 你们回去见父亲,然后对他说:我们的父亲啊!你的儿子确已偷窃,我们只作证我们所知道的。我们不是保证幽玄的。
82 请你问一问我们曾居住的那座市镇和与我们同行的队商吧,我们确是诚实的。
83 他说:不然!你们的私欲怂恿了你们做这件事,我只有很好的忍耐,但愿真主把他们统统带来给我。他确是全知的,确是至睿的。
84 他不理睬他们,他说:哀哉优素福!他因悲伤而两眼发白,他是压住性子的。
85 他们说:指真主发誓,你将念念不忘优素福,直到你变成为憔悴的或死亡的。
86 他说:我只向真主诉说我的忧伤,我从真主那里知道你们所不知道的。
87 他说:我的孩子们!你们去打听优素福和他弟弟的消息吧。你们不要绝望于真主的慈恩,只有不信道的人们才绝望于真主的慈恩。
88 当他们进去见优素福的时候,他们说:权贵啊!我们和我们的眷属遭遇了灾害,只带来了一点劣质财物,请你给我们足量的粮食,请你施舍给我们。真主一定会报酬施舍者。
89 他说:你们知道吗?当你们是愚昧的时候,你们是怎样对待优素福和他弟弟 的呢?
90 他们说:怎么,你呀!真是优素福吗?他说:我是优素福,这是我弟弟,真主确已降恩给我们。谁敬畏而且坚忍,(谁必受报酬),因为真主必不使行善者徒劳无酬。
91 他们说:指真主发誓,真主确已从我们当中拣选了你。从前,我们确是有罪的。
92 他说:今天对你们毫无谴责,但愿真主饶恕你们。他是最慈爱的。
93 你们把我这件衬衣带回去,把它蒙在我父亲的脸上,他就会恢复视力。然后,你们把自己的眷属全部带到我这里来吧!
94 当队商出发的时候,他们的父亲说:我确已闻到优素福的气味了,要不是你们说我是老糊涂。
95 他们说:指真主发誓,你的确还在你那旧有的迷误之中。
96 当报喜者来到后,他就. 渐. 谷. X在他的脸上,他的眼睛立即恢复了视力。他说:难道我没有对你们说过吗?我的确从真主知道你们所不知道的。
97 他们说:我们的父亲啊!请你为我们求饶,我们确是有罪的。
98 他说:我将要为你们向我的主求饶。他确是至赦的,确是至慈的。
99 当他们进去见优素福的时候,他拥抱他的双亲,他说:你们平安地进挨及吧!如果真主意欲。
100 他请他的双亲坐在高座上,他们为他而俯伏叩头,他说:我的父亲啊!这就是我以前的梦兆的解释。我的主已使那个梦兆变成为事实了。他确已优待我,因为他把我从监狱里释放出来,他在恶魔离间我和我哥哥们之后,把你们从沙漠里带到这里来。我的主,对他所意欲者确是慈爱的。他确是全知的,确是至睿的。
101 我的主啊!你确已赏赐我一部分政权,并教给我一些圆梦的知识。天地的创造者啊!在今世和后世,你都是我的主宰。求你使我作为顺从者而死去,求你使我入于善人之列。
102 那是一部分幽玄的消息,我把它启示你。当他们用计谋决策的时候,你不在他们面前,
103 你虽然切望世人信道,但他们大半是不信道的。
104 你不为传授《古兰经》而向他们要求任何报酬。《古兰经》只是对世人的教诲。
105 天地间有许多迹象,他们从旁边走过,而不注意。
106 . 他们虽然大半信仰真主,但他们都是以物配主的。
107 难道他们不怕真主惩罚中的大灾降临他们,或复活时在他们不知不觉之中,突然降临他们吗?
108 你说:这是我的道,我号召人们信仰真主,我和随从我的人,都是依据明证的。(我证)真主,超绝万物!我不是以物配主的。
109 在你之前,我只派遣了城市居民中的若干男子,我启示他们,难道他们没有在大地上旅行,因而观察前人的结局是怎样的吗?后世的住所,对于敬畏者是更好的。难道你们不理解吗?
110 直到众使者绝望,而且猜想自己被欺骗的时候,我的援助才来临他们,而我拯救了我所意欲的人。我所加于犯罪的人们的惩罚是不可抗拒的。
111 在他们的故事里,对于有理智的人们,确有一种教训。这不是伪造的训辞,却是证实前经,详解万事,向导信士,并施以慈恩的。
¡En el nombre de Alá, el Compasivo, el Misericordioso!
1 ‘lr. Ésas son las aleyas de la Escritura clara.
2 La hemos revelado como Corán árabe. Quizás, así razonéis.
3 Con la revelación que te hacemos de este Corán vamos a contarte Nosotros el más bello de los relatos, aunque hayas sido antes de los despreocupados.
4 Cuando José dijo a su padre: «¡Padre! He visto once estrellas, el sol y la luna. Los he visto prosternarse ante mí».
5 Dijo: «¡Hijito! !No cuentes tu sueño a tus hermanos; si no, emplearán una artimaña contra tí El Demonio es para el hombre un enemigo declarado.
6 Así te elegirá tu Señor y te enseñará a interpretar sueños. Completará Su gracia en ti y en la familia de Jacob, como antes la completó en tus dos antepasados Abraham e Isaac. Tu Señor es omnisciente, sabio».
7 Ciertamente, en José y sus hermanos hay signos para los que inquieren.
8 Cuando dijeron: «Sí, nuestro padre quiere más a José y a su hermano que a nosotros, aun siendo nosotros más numerosos. Nuestro padre está evidentemente extraviado.
9 ¡Matemos a José o expulsémosle a cualquier país, para que nuestro padre no nos mire más que a nosotros! Desaparecido José, seremos gente honrada».
10 Pero uno de ellos dijo: «¡No matéis a José ¡Echadlo, más bien, al fondo del aljibe, si es que os lo habéis propuesto…! Algún viajero lo recogerá…»
11 Dijeron: «¡Padre! ¡,Por qué no te fías de nosotros respecto a José? Tenemos buenas intenciones para con él.
12 ¡Envíale mañana con nosotros! Se divertirá y jugará. Cuidaremos, ciertamente, de él».
13 «Me entristece que os lo llevéis», dijo. «Temo que, en un descuido vuestro, se lo coma el lobo».
14 Dijeron: «Si el lobo se lo comiera, siendo nosotros tantos, sí que tendríamos mala suerte».
15 Cuando se lo llevaron y se pusieron de acuerdo para echarlo al fondo del aljibe… Y le inspiramos: «¡Ya les recordarás más tarde, sin que te reconozcan, lo que ahora han hecho!»
16 Al anochecer regresaron a su padre, llorando.
17 Dijeron: «Padre! Fuimos a hacer carreras y dejamos a José junto a nuestras cosas. Entonces, se lo comió el lobo. No nos creerás, pero decimos la verdad».
18 Y presentaron su camisa manchada de sangre falsa. Dijo: «¡No! Vuestra imaginación os ha sugerido esto. ¡Hay que tener digna paciencia! Alá es Aquél Cuya ayuda se implora contra lo que contáis».
19 Llegaron unos viajeros y enviaron a su aguador, que bajó el cubo. Dijo: «¡Buena noticia! ¡Hay aquí un muchacho!» Y lo ocultaron con ánimo de venderlo. Pero Alá sabía bien lo que hacían.
20 Y lo malvendieron por contados dirhemes, subestimándolo.
21 El que lo había comprado, que era de Egipto, dijo a su mujer: «¡Acógele bien! Quizá nos sea útil o lo adoptemos como hijo». Así dimos poderío a José en el país, y hasta le enseñamos a interpretar sueños. Alá prevalece en lo que ordena, pero la mayoría de los hombres no saben.
22 Cuando alcanzó la madurez, le dimos juicio y ciencia. Así retribuimos a quienes hacen el bien.
23 La señora de la casa en que estaba José le solicitó. Cerró bien las puertas y dijo: «¡Ven acá!» Dijo él: «¡Alá me libre! Él es mi señor y me ha procurado una buena acogida. Los impíos no prosperarán».
24 Ella lo deseaba y él la deseó. De no haber sido iluminado por su Señor… Fue así para que apartáramos de él el mal y la vergüenza. Era uno de Nuestros siervos escogidos.
25 Se precipitaron los dos hacia la puerta y ella desgarró por detrás su camisa. Y encontraron a la puerta a su marido. Dijo ella: «¡Cuál es la retribución de quien ha querido mal a tu familia, sino la cárcel o un castigo doloroso?»
26 Dijo: «Ella me ha solicitado». Y un miembro de la familia de ella atestiguó que si su camisa había sido desgarrada por delante, entonces, ella decía la verdad y él mentía,
27 mientras que si había sido desgarrada por detrás, entonces, ella mentía, y él decía la verdad.
28 Y cuando vio que su camisa había sido desgarrada por detrás dijo: «Es una astucia propia de vosotras. Es enorme vuestra astucia…
29 ¡José! ¡No pienses más en eso! ¡Y tú, pide perdón por tu pecado! ¡Has pecado!»
30 Unas mujeres decían en la ciudad: «La mujer del Poderoso solicita a su mozo. Se ha vuelto loca de amor por él. Sí, vemos que está evidentemente extraviada».
31 Cuando ella oyó sus murmuraciones, envió a por ellas y les preparó un banquete, dando a cada una de ellas un cuchillo. Y dijo que saliera adonde ellas estaban. Cuando las mujeres le vieron, le encontraron tan bien parecido que se hicieron cortes en las manos y dijeron: «¡Santo Alá! ¡Éste no es un mortal, éste no es sino un ángel maravilloso!»
32 Dijo ella: «Ahí tenéis a aquél por quien me habéis censurado y a quien yo he solicitado, pero él ha permanecido firme. Ahora bien, si no hace lo que yo le ordeno, ha de ser encarcelado y será, ciertamente, de los despreciables».
33 Dijo él: «¡Señor! Prefiero la cárcel a acceder a lo que ellas me piden. Pero, si no apartas de mí su astucia, cederé a ellas y seré de los ignorantes».
34 Su Señor le escuchó y apartó de él su astucia. Él es Quien todo lo oye, Quien todo lo sabe.
35 Más tarde, a pesar de haber visto los a signos, les pareció que debían encarcelarle por algún tiempo.
36 Con él. entraron en la cárcel dos esclavos. Uno de ellos dijo: «Me he visto prensando uva». Y el otro dijo: «Yo me he visto llevando sobre la cabeza pan, del que comían los pájaros. ¡Danos a conocer su interpretación! Vemos que eres de quienes hacen el bien.
37 Dijo: «No recibiréis la comida que os corresponde antes de que yo os haya, previamente, dado a conocer su interpretación. Esto forma parte de lo que mi Señor me ha enseñado. He abandonado la religión de gente que no creía en Alá ni en la otra vida.
38 y he seguido la religión de mis antepasados Abraham, Isaac y Jacob. No debemos asociar nada a Alá. Este es un favor que Alá nos hace, a nosotros y a los hombres. Pero la mayoría de los hombres no agradecen.
39 ¡Compañeros de cárcel! ¿Son preferibles señores separados a Alá, el Uno, el Invicto?
40 Lo que servís, en lugar de servirle a Él, no son sino nombres que habéis puesto, vosotros y vuestros padres, nombres a los que Alá no ha conferido ninguna autoridad. La decisión pertenece sólo a Alá. Él ha ordenado que no sirváis a nadie sino a Él. Ésa es la religión verdadera. Pero la mayoría de los hombres no saben.
41 ¡Compañeros de cárcel! Uno de vosotros dos escanciará vino a su señor. El otro será crucificado y los pájaros comerán de su cabeza. Se ha decidido ya lo que me consultabais».
42 Y dijo a aquél de los dos de quien creía que iba a salvarse: «¡Recuérdame ante tu señor!», pues el Demonio había hecho que se olvidara del recuerdo de su Señor. Y continuó en la cárcel varios años más.
43 El rey dijo: «He visto siete vacas gordas a las que comían siete flacas, y siete espigas verdes y otras tantas secas. ¡Dignatarios! ¡Aclaradme mi sueño, si es que sois capaces de interpretar sueños!»
44 Dijeron: «¡Amasijo de sueños! Nosotros no sabemos de interpretación de sueños.
45 Aquél de los dos que se había salvado recordó al cabo de un tiempo y dijo: «¡Yo os daré a conocer su interpretación! ¡Dejadme ir!»
46 «¡José, veraz! ¡Acláranos qué significan siete vacas gordas a las que comen siete flacas y siete espigas verdes y otras tantas secas! Quizá vuelva yo a los hombres. Quizás, así, se enteren».
47 Dijo: «Sembráis durante siete años, como de costumbre, y, al segar, dejad la espiga, salvo una porción pequeña de que comeréis.
48 Sucederán siete años de carestía que agotarán lo que hayáis almacenado previsoramente, salvo un poco que reserváis.
49 Seguirá un año en el que la gente será favorecida y podrá prensar».
50 El rey dijo: «¡Traédmelo!» Cuando el enviado vino a él, dijo: «¡Vuelve a tu señor y pregúntale qué intención animaba a las mujeres que se hicieron cortes en las manos! Mi Señor está bien enterado de su astucia».
51 .Dijo: «¿Cuál era vuestra intención cuando solicitasteis a José?» Dijeron ellas: «¡Santo Alá! No sabemos de él que haya hecho nada malo». La mujer del Poderoso dijo: «Ahora brilla la verdad. ¡Yo soy la que le solicitó! Él es de los que dicen la verdad».
52 «Esto es así para que sepa que no le he traicionado a escondidas y que Alá no dirige la astucia de los traidores.
53 Yo no pretendo ser inocente. El alma exige el mal, a menos que mi Señor use de Su misericordia. Mi Señor es indulgente, misericordioso».
54 El rey dijo: «¡Traédmelo! Le destino a mi servicio». Cuando hubo hablado con él, dijo: «Hoy has encontrado entre nosotros un puesto de autoridad, de confianza».
55 Dijo: «¡Ponme al frente de los almacenes del país! ¡Yo sé bien cómo guardarlos!»
56 Y así dimos poderío a José en el país, en el que podía establecerse donde quería. Nosotros hacemos objeto de Nuestra misericordia a quien queremos y no dejamos de remunerar a quienes hacen el bien.
57 Con todo, la recompensa de la otra vida es mejor para quienes creen y temen a Alá.
58 Los hermanos de José vinieron y entraron a verle. Éste les reconoció, pero ellos a él no.
59 Cuando les hubo suministrado sus provisiones dijo: «Traedme a un hermano vuestro de padre. ¿No veis que doy la medida justa y que soy el mejor de los hospederos?
60 Si no me lo traéis, no obtendréis más grano de mí ni os acercaréis más a mí»
61 Dijeron: «Se lo pediremos a su padre, ¡sí que lo haremos!»
62 Y dijo a sus esclavos: «¡Poned su mercancía en sus alforjas. Quizá la reconozcan cuando regresen a los suyos. Quizás, así, regresen…»
63 De vuelta a su padre, dijeron: «¡Padre! Se nos ha negado el grano. Envía, pues, con nosotros a nuestro hermano y así recibiremos grano. Cuidaremos, ciertamente, de él».
64 Dijo: «Las seguridades que ahora me ofrecéis respecto a él ¿son diferentes de las que antes me ofrecisteis repecto a su hermano? Pero Alá es Quien cuida mejor y es la Suma Misericordia».
65 Y, cuando abrieron su equipaje, hallaron que se les había devuelto su mercancía. Dijeron: «¡Padre! ¿Qué más podríamos desear? He aquí que se nos ha devuelto nuestra mercancía. Aprovisionaremos a nuestra familia, cuidaremos de nuestro hermano y añadiremos una carga de camello: será una carga ligera».
66 Dijo: «No lo enviaré con vosotros mientras no os comprometáis ante Alá a traérmelo, salvo en caso de fuerza mayor». Cuando se hubieron comprometido, dijo: «Alá responde de nuestras palabras».
67 Y dijo: «¡Hijos míos! No entréis por una sola puerta, sino por puertas diferentes. Yo no os serviría de nada frente a Alá. La decisión pertenece sólo a Alá. ¡En Él confío! ¡Que los que confían confíen en Él!
68 Cuando entraron como les había ordenado su padre, esto no les valió de nada frente a Alá. Era sólo una necesidad del alma de Jacob, que él satisfizo. Poseía ciencia porque Nosostros se la habíamos enseñado. Pero la mayoría de los hombres no saben.
69 Cuando estuvieron ante José, éste arrimó a sí a su hermano y dijo: «¡Soy tu hermano! ¡No te aflijas, pues, por lo que hicieron!»
70 Habiéndoles aprovisionado, puso la copa en la alforja de su hermano. Luego, un voceador pregonó: «¡Caravaneros! ¡Sois, ciertamente, unos ladrones!»
71 Dijeron, dirigiéndose a ellos: «Qué echáis de menos?»
72 Dijeron: «Echamos de menos la copa del rey. Una carga de camello para quien la traiga. Yo lo garantizo».
73 «¡Por Alá!» dijeron. «Bien sabéis que o no hemos venido a corromper en el país y que no somos ladrones».
74 Dijeron: «Y, si mentís, ¿Cuál será su retribución?»
75 Dijeron: «La retribución de aquél en cuya alforja se encuentre será que se quede aquí detenido. Así retribuimos a los impíos».
76 Comenzó por sus sacos antes que por el de su hermano. Luego, la sacó del saco de su hermano. Nosotros sugerimos esta artimaña a José, pues no podía prender a su hermano según la ley del rey, a menos que Alá quisiera. Elevamos la categoría de quien Nosotros queremos. Por encima de todo el que posee ciencia hay Uno Que todo lo sabe.
77 Dijeron: «Si él ha robado, ya un hermano suyo ha robado antes». Pero José lo mantuvo secreto y no se lo reveló. Pensó: «Os encontráis en la situación peor y Alá sabe bien lo que contáis».
78 Dijeron: «¡Poderoso! Tiene un padre muy anciano. Retén a uno de nosotros en su lugar. Vemos que eres de quienes hacen el bien».
79 Dijo: «¡Alá nos libre de retener a otro distinto de aquél en cuyo poder hemos encontrado nuestra propiedad! Seríamos, si no, injustos».
80 Desesperado de hacerle cambiar, celebraron una consulta. El mayor dijo: «¿Habéis olvidado que vuestro padre os ha exigido comprometeros ante Alá y cómo faltasteis antes a José? Yo no saldré de este país hasta que mi padre me lo permita o hasta que Alá decida en mi favor, que Él es el Mejor en decidir.
81 Regresad a vuestro padre y decid: ‘¡Padre! Tu hijo ha robado. No atestiguamos sino lo que sabemos. No podíamos vigilar lo oculto.
82 Interroga a la ciudad en que nos hallábamos y a la caravana con la cual hemos venido. ¡Sí, decimos la verdad!’»
83 Dijo: «¡No! Vuestra imaginación os ha sugerido esto. ¡Hay que tener digna paciencia! Tal vez Alá me los devuelva a todos. Él es el Omnisciente, el Sabio».
84 Y se alejó de ellos y dijo: «¡Qué triste estoy por José!» Y, de tristeza, sus ojos perdieron la vista. Sufría en silencio…
85 Dijeron: «¡Por Alá, que no vas a dejar de recordar a José hasta ponerte enfermo o morir!»
86 Dijo: «Sólo me quejo a Alá de mi pesadumbre y de mi tristeza. Pero sé por Alá lo que vosotros no sabéis…
87 ¡Hijos míos! ¡Id e indagad acerca de José y de su hermano y no desesperéis de la misericordia de Alá, porque sólo el pueblo infiel desespera de la misericordia de Alá!»
88 Cuando estuvieron ante él, dijeron: «¡Poderoso! Hemos sufrido una desgracia, nosotros y nuestra familia, y traemos una mercancía de poco valor. ¡Danos, pues, la medida justa y haznos caridad! Alá retribuye a los que hacen la caridad».
89 Dijo: «¿Sabéis lo que, en vuestra ignorancia, hicisteis a José y a su hermano?»
90 Dijeron: «¿De veras eres tú José?» Dijo: «¡Yo soy José y éste es mi hermano! Alá nos ha agraciado. Quien teme a Alá y es paciente…Alá no deja de remunerar a quienes hacen el bien».
91 Dijeron: «¡Por Alá! Ciertamente, Alá te ha preferido a nosotros. ¡Hemos pecado!»
92 Dijo: «¡Hoy no os reprochéis nada! ¡Alá os perdonará Él es la Suma Misericordia.
93 ¡Llevaos esta camisa mía y aplicadla al rostro de mi padre: recuperará la vista! ¡Traedme luego a vuestra familia, a todos!»
94 Al tiempo que la caravana emprendía el regreso, dijo su padre: «Noto el olor de José, a menos que creáis que chocheo».
95 Dijeron: «¡Por Alá, ya estás en tu antiguo error!»
96 Cuando el portador de la buena nueva llegó, la aplicó a su rostro y recuperó la vista. Dijo: «¿No os decía yo que sé por Alá lo que vosotros no sabéis?»
97 Dijeron: «¡Padre! ¡Pide a Alá que nos perdone nuestros pecados! ¡Hemos pecado!»
98 Dijo: «¡Pediré a mi Señor que os perdone! Él es el Indulgentes el Misericordioso».
99 Cuando estuvieron ante José, éste arrimó a sí a sus padres y dijo: «¡Entrad seguros en Egipto, si Alá quiere!»
100 Hizo subir a sus padres al trono. Y cayeron prosternados ante él. Y dijo: «¡Padre! He aquí la interpretación de mi sueño de antes. Mi Señor ha hecho de él una realidad. Fue bueno conmigo, sacándome de la cárcel y trayéndoos del desierto, luego de haber sembrado el Demonio la discordia entre yo y mis hermanos. Mi Señor es bondadoso para quien Él quiere. Él es el Omnisciente, el Sabio.
101 ¡Señor! Tú me has dado del dominio y me has enseñado a interpretar sueños. ¡Creador de los cielos y de la tierra! ¡Tú eres mi Amigo en la vida de acá y en la otra! ¡Haz que cuando muera lo haga sometido a Ti y me reúna con los justos!»
102 Esto forma parte de las historias referentes a lo oculto, que Nosotros te revelamos. Tú no estabas con ellos cuando se pusieron de acuerdo e intrigaron.
103 La mayoría de los hombres, a pesar de tu celo, no creen.
104 Y tú no les pides un salario a cambio. No es sino una amonestación dirigida a todo el mundo.
105 ¡Qué designios hay en los cielos y en la tierra, junto a los cuales pasan indiferentes!
106 La mayoría no creen en Alá sino como asociadores.
107 ¿Es que están, pues, a salvo de que les venga, cubriéndolos, el castigo de Alá, o de que les venga la Hora de repente, sin presentirla?
108 Di: «Éste es mi camino. Basado en una prueba visible, llamo a Alá, y los que me siguen también. ¡Gloria a Alá! Yo no soy de los asociadores».
109 Antes de ti. no enviamos más que a hombres de las ciudades, a los que hicimos revelaciones. ¿No han ido por la tierra y mirado cómo terminaron sus antecesores? Sí, la Morada de la otra vida es mejor para los que temen a Alá ¿Es que no razonáis…?
110 Cuando ya los enviados desesperaban y pensaban que se les había mentido, les llegó Nuestro auxilio y fue salvado el que quisimos. Pero Nuestro rigor no respetará al pueblo pecador.
111 Hay en sus historias motivo de reflexión para los dotados de intelecto… No es un relato inventado, sino confirmación de los mensajes anteriores, explicación detallada de todo, dirección y misericordia para gente que cree.